کیا واقعی تیسری جنگ ہونے جا رہی ہے؟ایران اور اسرائیل کا نیا تنازعہ ۔ تمام حقائق سے پردہ ااٹھایا جائےگا۔

  عمران ریاض خان کے چینل سے لیا گیا ہے۔

 مترجم و تشریح کار ہاشم کاکڑ

میں ہوں عمران خان ہوں اور ادھی رات کے بعد سے ایک خبر جو بہت زیادہ گردش کر رہی ہے بہت  سارے لوگ

کہہ رہے تھے اس پہ فوری طور پر وی لاگ کرنا چاہیے انفارمیشن شیئر کرنی چاہیے لیکن مجھے ویسے ہی تجسس نہیں تھی۔ جو لوگ محسوس کر رہے تھے یعنی ٹویٹر کے اوپر ایک بہت بڑا ہنگامہ تھا لوگ کہہ رہے تھے کہ تیسری جنگ عظیم شروع ہونے جا رہی ہے۔ کیونکہ زیادہ تر لوگ اس کا سیاق و سباق نہیں جانتے۔ لوگوں کو ائیڈیا نہیں ہے کہ یہ جو سارا کچھ ہوا ہے اس کا بیک گراونڈکیا ہے اور کس وجہ سے ایران نے اسرائیل کے اوپر اٹیک کیا ۔اور اسرائیل کا کتنا نقصان اس میں ہو سکتا ہے اور مشکلات کتنی ہیں اس کے علاوہ  کچھ ملکوں کے لیےکیا مسایل  پیدا ہو گئی تھی وقتی طور پہ کیونکہ وہاں پہ جو عوام کا رد عمل تھا۔ وہ مختلف تھا اور حکومتوں کا رد عمل  مختلف ہوتا ہے میں تفصیلات اپ کے سامنے ایک ایک کر کے رکھ دیتا ہوں کہ اصل میں ایران نے یہ حملہ کیوں کیا؟ اسرائیل سے اس اٹیک کا کیا نقصان ہوا ؟اس سے کس کس کا فائدہ ہوگا ؟اور کیا فلسطینیوں کی ایک الگ خود مختار ریاست کے راستے میں اس کو ایک قدم کے طور پہ دیکھا جا سکتا ہے یہی سب سے بڑا سوال ہے۔ نا کہ یہ اٹیک کہیں فلسطینیوں کو فائدہ پہنچائے گا پاکستان کا ردعمل بھی بہت اہم ہے ۔   مجھے ائیڈیا تھا کہ رد عمل کیا ہوگا ۔میں نے کچھ میرے ساتھ جو دوست موجود تھے رات کو میں نے انہیں کہا۔ میں نے کہا جی میں اپ کو ایک سٹیٹمنٹ بتاتا ہوں۔ یہی سٹیٹمنٹ پاکستان کی گورنمنٹ دے گی میں نے ان کو وہ سٹیٹمنٹ بتائی۔ وہ ابھی تھوڑی دیر پہلے مجھے کہہ رہے تھے کہ واقعی ویسی ہی بیانیہ تھا جو پاکستان کی گورنمنٹ نے دی ہے ۔مجھے ائیڈیا تھا کہ پاکستان زیادہ سے زیادہ کیا کر سکتا ہے۔ لیکن پہلے آپ کو تفصیلات میں بتا دیتا ہوں ۔ ایران نے اٹیک کیا اسرائیل کے اوپر۔ اس کے حوالے سے مختلف اطلاعات ارہی ہیں۔ یعنی امریکہ کا ایک دعوی 500کے قریب کوئی ڈرونز کے ہیں کچھ کروز میزائلز گئے ہیں۔ یہ تو امریکہ کی جانب سے ایک دعوی تھا۔ اسرائیل کی جانب سے شروع میں اور ایران کا بھی دعوی تھا کہ انہوں نے بہت تگڑا حملہ کیا ہے لیکن دراصل یہ اٹیک کیا تھا اب کچھ تفصیلات انا شروع ہو گئی ہیں اور یہ بھی ابھی کنفرم نہیں ہے کنفرم اطلاعات تب آئینگی جب ڈاکومنٹ شیئر ہوں گے جب ساری چیزیں کلیئر ہوں گی۔ تو پھر سامنے ا جائیں گی ایران نے185 ڈرون110 میزائل اور 36 کروز میزائل داغے ہیں ۔یہ دعوی کیا گیا ۔اسرائیل کی جانب سے ۔پہلے یہ500 تک کی بات کر رہے تھے لیکن اب انہوں نے ایک نمبر دیا ہے اور ایران نے اسرائیل پر تقریبا 200 ڈرون اور کروز میزائل فائر کیے ہیں۔ ایک دعوی یہ بھی ہے تو مختلف دعوے ا رہے ہیں ایرانی میڈیا جو ہے وہ یہ دعوی کر رہا ہے کہ اسرائیل میں جو 50 فیصد اہداف ان کے تھے جن کو انہوں نے ٹارگٹ کرنا تھا وہ انہوں نے ٹارگٹ اچیو کر لیا ہے۔

  دوسری جانب عالمی میڈیا پہ اور اسرائیلی میڈیا کے اوپر جو خبر ارہی ہے وہ یہ ہے کہ بہت معمولی نقصان ہوا ہے اور کوئی اس لیول کا نقصان اسرائیل کو نہیں ہوا جو قابل ذکر ہو۔ ہاں کچھ جگہ پہ ایران کامیاب ہوا ۔کیونکہ ایران کے جو ڈرونز گئے ہیں ان کی سپیڈ کی وجہ سے جو چیزیں انہوں نے اٹیک کے لیے استعمال کی ۔ایران کسی بھی ا اچھے ڈیفنس سسٹم کو پار کر سکتی ہیں۔ لیکن پھر بھی دھوکہ دینے کے لیے ان کی رفتار میں فرق ہے۔ کوئی تیز جا رہا ہے کوئی آہستہ جا رہا ہے کوئی نیچے اڑ رہا ہے کوئی اونچا اڑ رہا ہے ان کی اونچائی میں فرق ہے۔ ان کی سپیڈ میں فرق ہے تو یہ چیزیں ڈیسیو کرنے کے لیے ہوتی ہیں ۔لیکن کیا اتنے بڑے پیمانے پر ڈیسیو کرنے کے بعد ایران نے اپنے ٹارگٹ حاصل کیے ہیں اسرائیل میں تو اس کا اب تک جب میں یہ ویڈیو ریکارڈ کر رہا ہوں اس وقت تک کا جواب ہے کہ نہیں۔ کوئی ایسا بڑا ٹارگٹ حاصل نہیں ہوا اب تک۔ ہو سکتا ہے بعد میں کچھ اطلاعات آئے جس کے اندر تصدیق ہو جائے کہ اسرائیل میں کوئی بہت بڑا نقصان ہو گیا لیکن اب تک جو اطلاعات ہیں اور جس طرح سے عالمی میڈیا بتا رہا ہے یا ایران کی طرف سے ایک دعوے کے

 علاوہ اور کوئی ایسی چیز نہیں آرہی جس میں اسرائیل کا کوئی بہت بڑا نقصان ہو گیا ہو۔

  اب یہ ہوا کیوں ؟ دنیا بھر میں یہ ایک تاثر ہے کہ ایران جویہ سب کچھ کر رہا ہے۔ اس لیے کہ فلسطینیوں کی شہادتیں ہو رہی ہیں۔ غزا میں بہت ظلم ہو رہا ہے اور ایران باقی تمام مسلمان ملکوں کے اوپر سبقت لے گیا ہے ۔وہ اگے بڑھ کر اسرائیل پہ حملہ کر چکا ہے جبکہ باقی سارے مسلمان ممالک خاموشی کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں۔ یہ ایک بنیادی طور پر تاثر بن رہا ہے لیکن اس کے اندر کچھ اور حقائق ہیں جو میں اپ کے ساتھ شیئر کرتا ہوں۔

  سب سے پہلی حقیقت یہ ہے کہ ایک اٹیک ہوا تھا یکم اپریل کو اور یہ اٹیک ہوا تھا۔ دمشق میں۔ اور اس اٹیک کے اندر اسرائیل نے جو ہے وہ ایران کے کونسل خانے کو ٹارگٹ کیا تھا۔ دمشق میں یعنی دمشق کے اندر ایران کا جو کونسل خانہ ہے اس کے اوپر اسرائیل نے حملہ کیا تھا اور اس حملے میں سینیئر کمانڈر سمیت سات ایرانی جاں بحق ہوئے تھے۔ جوابی کاروائی کا حق رکھتے ہیں اس وقت ایران نے یہ کہا تھا۔ یہ واقعہ یکم اپریل کو رپورٹ ہوئی تھی اور اب جو اٹیک کا دن ہے یا رات کا وقت تھا وہ لگ بھگ دو ہفتے کے بعد ایران نے اس کا جواب دیا ہے۔ ایرانی پاسداران ا نقلاب کا کہنا ہے کہ شام کے دارالحکومت دمشق میں ایرانی کونسل خانے کی عمارت پر اسرائیلی حملے میں تنظیم کے دو سینئر کمانڈر سمیت سات اہلکار ہلاک ہوئے ہیں اور یہ ایران کا بہت بڑا نقصان تھا ۔ بڑے اہم اور سینیئر کمانڈرز تھے ایران کے ہلاک ہوئے ۔

  ایکچولی اسرائیل ایران پہ یہ الزام لگاتا ہے کہ حماس کے پیچھے ایران ہے اور حماس کو جتنی سپورٹ ملتی ہے اسرائیل کے اوپر اٹیک کرنے کے لیے۔ وہ ایران سے ملتی ہے اور وہ اس کونسل خانے کو جہاں پہ اسرائیل نے اٹیک کیا وہ ذمہ دار سمجھ رہا تھا کہ یہاں سے حماس کو پلاننگ اور سپورٹ ملتی ہے ۔تو انہوں نے اس کونسل خانے کے اوپر اٹیک کیا جو کہ غلط تھا ۔جو انٹرنیشنل قوانین کی خلاف ورزی تھی اور اپ کسی بھی کونسل خانے کے اوپر ایسے اٹیک نہیں کر سکتے ا۔یک تیسرے ملک میں جا کر۔ اور کونسلیٹ کے اوپر اٹیک تو عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ اس کی تو کہیں اجازت بھی نہیں ہے تو ایران کے ساتھ ایک بہت بڑی زیادتی کی تھی اسرائیل نے۔ اور اسرائیل کے الزامات تھے اس سے پہلے ایران کے اوپر کہ ایران سپورٹ کر رہا ہے تو ایران تو کھلی طور پرفلسطین کو سپورٹ کرتا ہے۔ وہ تو یہ کہتا ہے کہ فلسطینیوں کو ان کا رائٹ ملنا چاہیے۔ یہ تو پاکستان بھی کہتا ہے لیکن ایران پریکٹیکلی اس کو سپورٹ کرتا ہے۔ یہ دعوی اسرائیل بار بار کرتا رہا تو اسرائیل نے اٹیک کر دیا۔ دمشق کے اندر ایک کونسل خانے پر۔ جس کو وہ سمجھتے تھے کہ ان کے خلاف ایران وہاں پہ استعمال کر رہا ہے وہاں پہ سات لوگ جو ہیں وہ ایرانی شہید ہو گئے اور ان میں دو سینیئر کمانڈرز بھی اس کے اندر پاسداران انقلاب کے شامل تھے اور اس فورس کو کہتے ہیں جی قدس فورس اور اس کے سینیئر کمانڈر برگیڈیئر جنرل محمد رضا زاہدی اور ان کے نائب برگیڈیئر جنرل محمد بادی حاجی رحیمی بھی شامل تھے۔ یہ دو بڑے اہم لوگ تھے ایران کے اور ان دو لوگوں کی شہادت کو ایران میں بڑا دھچکا لگا اور ایران نے کہا جی ہمارے پاس اب حق ہے کہ اب واپس بدلہ لیں ۔ واپس حملہ کریں تو سب کو ایک بات کاائیڈیا تھا کہ ایران اس بات کا جواب دے گا اور ایران کو اس کا جواب دینا پڑے گا۔

  دیکھیں ایران میں الیکشن بھی ہو رہے ہیں ایران میں الیکشن کا ایک مرحلہ ہو چکا ہے۔ جہاں پہ زیادہ تر فیصلہ ہو گیا کہ حکومت کس کی رہے گی لیکن ٹرن اوٹ کم تھا اس کو بہت تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا تھا اب اس کا الیکشن کا اگلا مرحلہ اس مہینے کے اخر میں اگلے مہینے میں ہونا ہے۔ تو اس کا بھی ایک پریشر تھا۔ تو لگاتار پریشر بڑھ رہا تھا۔ ایرانی حکومت نے درست فیصلہ کیا کہ اگر ان کے اوپر اٹیک کیا ہے تو بالکل واپس ان کو جوابی حملہ کرنا چاہیے کوئی بھی خود مختار آزاد ریاست یہی کرے گی۔ اپ کو یاد ہوگا ایران سے پاکستان کے اندر اٹیک ہوا کچھ عرصہ پہلے اور پھر پاکستان نے واپس ایران کے اندر جا کر اٹیک کیا ۔تو پاکستان کو وہی کرنا چاہیے تھا جو ایک ازاد اور خود مختار ملک کرتا ہے تو 2019 میں اپ کو یاد ہوگا جب انڈیا نے اپنے طیاروں کو لے کر پاکستان میں گھسے تھے تو پھر پاکستانی بھی اپنے طیاروں کو لے کر انڈیا میں گھسے تھے اور پھر انڈیا کے دو طیارے دھول چاٹ گئے تھے ابھی نندن کو ہم نے پکڑ لیا تھا۔ بعد میں ہم نے خیرات میں واپس کر دیا تو وہ بھی ایک قسط چلا تھا۔ یہ بھی ایک اسی نوعیت کا قسط ہے کہ اسرائیل نے ایران پہ اٹیک کیا الزام لگاتے ہوئے اور اسی طرح ایران نے واپس اسرائیل کے اوپر اٹیک کیا اس کا ریٹیلییشن کے اندر اب اسرائیل جو ہے وہ کوشش کرے گا کہ اس کو استعمال کریں ایک وکٹم کارڈ کے طور پہ۔ کہ جناب دیکھیں ہمارے اوپر ایران نے حملہ کر دیا ہمارے ساتھ بڑی زیادتی کی ہے سلامتی کونسل کا انہوں نے اجلاس بھی بلا لیا۔

  اس میں جو بڑی اہم چیز ہوئی ہے کہ پوری دنیا کے اندر جو مسلمان ہے اور جو فلسطین کے حمایتی ہیں۔ ان ساروں کو بڑی امید بن گئی ۔فلسطین کے اندر غذا کے اندر مسلمان باہر نکل ائے۔ وہ خوش ہو رہے تھے کہ ایران نے اٹیک کر دیا ہے اسرائیل کے اوپر اور اس کے بعد جو ہے وہ تہران کے اندر بہت بڑی تعداد میں لوگ باہر نکل ائے۔ وہ سیلیبریٹ کر رہے تھے کہ ایران نے اسرائیل کے اوپر اٹیک کر دیا۔ ایکچولی یہ حملہ نہیں تھا۔ یہ جوابی حملہ تھا ایران کا۔ جو اسرائیل نے چھیڑا تھا۔ انہوں نے واپس چھیڑ دیا ہے۔ اس کا کچھ لینا دینا فی الحال فلسطین کے ساتھ نہیں ہے۔ لیکن یاد رکھیے گا کوئی بھی جنگ عظیم چھڑی ہو یا کوئی بھی بڑی جنگ لگی ہوئی ۔اس دنیا میں اس کا اغاز کے لیے چھوٹے سے واقعے سے ہوتا ہے۔ جو بڑی سے بڑی اگ لگتی ہے ایک چھوٹی سی چنگاری کی وجہ سے لگتی ہے تو ہم نے اس کو اس کی حساسیت کو ضرور پہچاننا ہے۔ اور جاننا ہے کچھ چیزیں ہوئی ہیں۔ اردن کھڑا ہو گیا امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ امریکہ نے سٹیٹمنٹ دیا وہ اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے سانس نے کہا کہ ہم اپ کی بیک پہ کھڑے ہیں اسرائیل کو اسی طرح جو برطانیہ ہے اس نے ایران کے خلاف اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہونے کو ترجیح دی ہے ۔اقوام متحدہ نے فوری طور پہ اس کی مذمت کی ہے کچھ ممالک اس میں نیوٹرل رول پلے کر رہے ہیں جس طرح انڈیا ہے انڈیا نے جو سٹیٹمنٹ دیا انڈیا نے کہا جی کہ ہمیں تشویش ہے خطے کے اندر کشیدگی ہو جائے گی۔ لہذا دونوں سائیڈیںتحمل کا مظاہرہ کریں۔اسی طرح جو پاکستان کا سٹیٹمنٹ ہے ۔پاکستان والا سٹیٹمنٹ تو میں اپ کو پڑھ کے بھی سنا دیتا ہوں ابھی پاکستان کے دفتر خارجہ نے کہا کہ پاکستان کو مشرق وسطی کی صورتحال پر گہری تشویش ہے ۔پاکستان نے کئی ماہ سے غزا میں جنگ بندی کے لیے بین الاقوامی کوششوں کی ضرورت پر زور دیا ہے ایران کی جانب سے اسرائیل پر حملے کے بعد خطے میں بڑھتی کشیدگی پر پاکستان نے مشرق وسطی کی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔ دو اپریل کو پاکستان نے شام میں ایرانی کونسل خانے پر حملے کو ایک بڑی کشیدگی کا پیش خیمہ قرار دیا تھا اج کی پیشرف سفارت کاری کے ٹوٹنے کے نتائج کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ صورتوں میں سنگین مظمرات کو بھی واضح کرتے ہیں۔ جہاں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل بین الاقوامی امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے کی اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے سے قاصر ہیں اب صورتحال کو مستحکم کرنے اور امن کی بحالی کی اشد ضرورت ہے ہم تمام فریقین سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ انتہائی تحمل سے کام لیں اور کشیدگی کو کم کرنے کی طرف بڑھیں۔ یعنی پاکستان یہ کہہ رہا ہے کہ ایران بھی اور اسرائیل بھی یہ تحمل سے کام لیں کشیدگی سے بچیں۔

  ایران نے ایک چیز اور کی ہے ایران نے ایک تو سٹیٹمنٹ جاری کر دیا ہے جنرل باکری کا سٹیٹمنٹ ہے وہ سٹیٹمنٹ بھی میں اپ کو پڑھ کے سنا دیتا ہوں تاکہ چیزیں اور کلیئر ہو جائیں گیا۔ جنرل باکری نے یہ کہا ہے ایران کے یہ ہیں ا میجر جنرل محمد باقری اپریشن کامیابی سے مکمل ہو گیا ہے اس اپریشن نے ہمیں مکمل نتیجہ دیا ہے اور اب مزید اپریشن جاری رکھنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے ایران نے فوری طور پہ ایک اٹیک کے بعد جنگ بندی کا اعلان بھی اپنی جانب سے کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ کو بھی یقین دلوا دیا ہے اور باقی ہر جگہ پہ بھی ایران نے کہہ دیا ہے کہ ہم کسی اور لڑائی کا حصہ نہیں بنیں گے امریکہ نے کچھ رپورٹس کے مطابق اسرائیل کو اگاہ کیا کہ ہم ایران پہ اٹیک نہیں کریں گے لیکن امریکہ اسرائیل کا دفاع کرے گا۔ ایران پہ اٹیک نہیں کرے گا۔ ایران نے اسرائیل کو خبردار کیا ہے کہ اگر اسرائیل نے حملہ کیا دوبارہ تو پھر ایران بھرپور جوابی حملہ کرے گا ۔ا۔ب ایران اور اسرائیل کی جو طاقت ہے اس کا موازنہ کیا ہے وہ اپ کو میں کسی اور وی لاگ میں بتا دوں گا کہ ایران کیا کر سکتا ہے اسرائیل کا یا اسرائیل کیا کر سکتا ہے ایران کا اور اگر یہ اگ بھڑک جاتی ہے تو پھر خطے کی صورتحال کیا ہوگی اور دنیا کی صورتحال کیا ہوگی ۔امپورٹنٹ یہ ہے کہ کون کہاں کھڑا ہوگا سعودی عرب کا سٹیٹمنٹ میں سب سے زیادہ اس کا انتظار کر رہا تھا۔ وہ اس لیے کیونکہ سعودی عرب امت مسلمہ کو لیڈ کرتا ہے اور جب بھی فلسطین کے ساتھ ظلم ہوتا ہے تو سب کے سب پہلے سعودی عرب کی طرف دیکھتے ہیں ۔کیونکہ وہ لیڈر ہے وہ اگے چلے گا تو باقی سارے پیچھے چلیں گے ساتھ۔ سعودی عرب کی وزارت خارجہ نے خطے میں فوجی کشیدگی پر تشویش کا اظہار کیا اور جنگ کے خطرات سے بچنے کے لیے تمام فریقین سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کا مطالبہ کیا۔ سرکاری خبر رسائی ایجنسی کے مطابق ایک بیان میں سعودی وزارت خارجہ نے خبردار کیا کہ اگر تنازع بڑھایا گیا تو سنگین نتائج ہوں گے۔ چین نے بھی ایسے ہی سٹیٹمنٹ دیا اور روس نے بھی ایسے ہی سٹیٹمنٹ دیا تو دنیا اس لڑائی کو ختم کرنا چاہتی ہے وہ نہیں چاہ رہے کہ یہ لڑائی بڑے اور ایک بڑی جنگ کی طرف دنیا جائے۔

ایران نے ایک اور سٹیٹمنٹ دیا ایران نے کہا کہ اگر کسی ملک نے امریکہ کو اپنی فضائی حدود دی۔ ایک تو انہوں نے امریکہ کو خبردار کیا کہ وہ اس لڑائی سے اپنے اپ کو باہر رکھے ورنہ جو اس کا بیری بیڑا وہاں پہ موجود ہے قریب ہم اس کے اوپر اٹیک کر دیں گے۔ امریکہ نے مشرق وسطہ کے اندر اپنایہ کائرن ڈوم ہے وہ بھی دنیا کا ایک بہترین سسٹم ہے وہ بھی امریکہ اور اسرائیل نے اشتراک کے ساتھ لگایا ہوا ہے اسرائیل میں وہ بھی بڑی کامیابی سے اب تک کام کر رہا ہے حماس نے جتنا اٹیک کیا اس کا بیشتر انہوں نے اس سے کنٹرول کیا تھا۔ اب جو ایران نے کیا تو اس کا بیشتر حصہ انہوں نے دوبارہ کنٹرول کیا ہے جو اہم انسٹالیشنز ہیں یا جو اہم ایریاز ہیں اسرائیل کے وہاں پہ حملہ کرنا بہت مشکل ہوتاہے ۔ ایسے ایئر ڈیفنس سسٹم کی موجودگی میں۔ایران نے کم سے کم اپنا بدلہ لیا ہے۔ ایک جوابی حملہ کیا ہے اور یہ ظاہر کیا ہے کہ اگر ہمارے اوپر اسرائیل اٹیک کرے گا تو ہم واپس ریٹیلییٹ کریں گے واپس حملہ کریں گے اب اس بات کی فکر نہیں کریں گے کہ اسرائیل کے ساتھ کون کون سا ملک کھڑا ہے۔ اردن نے حیرت انگیز طور پہ جو ہے وہ اسرائیل کا ساتھ دیا ہے اور کچھ ممالک نے اپنی ایئر سپیس بند کر دی اپنے طیارے جو ہیں جہاں سے ا رہے تھے وہیں واپس موڑ دیے۔ تو ایران نے جو مین وارننگ دی ہے وہ یہ ہے کہ اسرائیل نے جوابی کاروائی کی تو جواب اس سے بھی زیادہ بھرپور دیں گے جو ہم نے پہلے دے دیا ہے

  بہرحال ایران نے جو کرنا تھا وہ کر دیا ۔لیکن اسرائیل نے ایک سٹیٹمنٹ دے دیا ہے اسرائیل نے ایرانی حملے پر سخت جوابی کاروائی کا اعلان کر دیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا وہ جوابی کاروائی کر پاتے ہیں امریکن الیکشنز کے اوپر اس کا اثر پڑے گا یاد رکھیے گا جو بائیڈن اس کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے اور ڈونلڈ ٹرمپ نے تو کہہ دیا ہے کہ اگر میں ہوتا صدر امریکہ کا تو اسرائیل کے اوپر یہ اٹیک ہی نہ ہو ایک تو اسرائیل جس کو لوگ ایک ظالم کے طور پر دیکھ رہے تھے اس اٹیک کے بعد وہ کوشش کرے گا کہ دنیا کو یہ بتائیں کہ جی ہم تو مظلوم ہیں ۔ ہمارے پاس تو ایک بہت بڑا اٹیک ہوا ہے۔ لیکن ایک بات جو ہر جگہ پہ سب کو کرنی چاہیے وہ یہ ہے کہ ایران نے حملہ نہیں کیا ۔ایران نے جوابی حملہ کیا ہے اور دوسری بات یہ لڑائی فلسطینیوں کے لیے نہیں تھی۔ یہ ایران نے ایک جواب دیا ہے۔ جو ایران سے سوال پوچھا تھا۔ اسرائیل نے فلسطینیوں کے لیے یہ لڑائی نہیں تھی فلحال ۔لیکن ایران سب سے بڑا سپورٹر بھی ہے فلسطینیوں کا یہ بھی ہمیں سیم ٹائم میں یاد رکھنا ہے اب تک کے لیے اتنا ہی اپنا خیال رکھیے گا ۔ اللہ حافظ۔